اگرچہ لبوں تک یہ آیا بہت ہے |
غمِ دل کو ہم نے چھپایا بہت ہے |
کہ کندھن بنانا تھا ہم نے بھی اسکو |
ترے عشق میں دل جلایا بہت ہے |
کہ ہم نے وفا کا بھی دامن نہ چھوڑا |
کہ طوفاں بھی راہوں میں آیا بہت ہے |
اسے وہ سمجھ میں کبھی کیوں نہ آیا |
جو قصہ وفا کا سنایا بہت ہے |
یوں مشکل جدائی کی اپنی جگہ پر |
غمِ ہجر مجھ کو یوں بھایا بہت ہے |
کچھ اپنے غموں کی بھی تھی اک کہانی |
کچھ اس کی ادا نے ستایا بہت ہے |
نہ نقصاں نہ گھاٹا کوئی بھی ہوا ہے |
کہ سوزِ جگر بھی کمایا بہت ہے |
میں ساکن رہا ہوں تری سوچ میں بس |
اگرچہ جہاں نے ہلایا بہت ہے |
عجب ہے کہ گم میں ہوا تجھ میں ایسا |
نہ پا کے بھی تجھ کو جو پایا بہت ہے |
سو ضد پر ہی اپنی اڑا رہتا تھا وہ |
اگرچہ اسے تو منایا بہت ہے |
ہے قائم وہ دل میں ابھی بھی ہمایوں |
جو داغِ محبت مٹایا بہت ہے |
ہمایوں |
معلومات