اے صاحبِ مقدُور آخر تُو چاہتا کیا ہے |
سَہمے سَہمے زندہ لاشے ڈراتا کیا ہے |
ہیں دشمن کھڑے دمِ خنجر لئے سر پہ ہمارے |
اپنا ہو کے تُو اپنوں پہ تیر چَلاتا کیا ہے |
جب مُفتی و قاضی ہی ہوں شاہوں کے ہم نوا |
پھر تُو کُنجِ قفس میں اے ناداں چِلاتا کیا ہے |
مسندِ اعلیٰ پہ بیٹھے ہیں جو جھوٹے خُدا بن کے |
تُو آیاتِ مُبین اِنہیں دکھلاتا کیا ہے |
حق لینا ہے تو پھر لہو اپنا بہانا پڑے گا |
قصۂ مُوسی و فرعوں اِن کو سُناتا کیا ہے |
معلومات