مجھے تجھ سے بچھڑ جانے کا دکھ ہے
کلی کے کھل کے مرجھانے کا دکھ ہے
مجھے کل تو نے ٹھہرایا تھا لیکن
جہاں کو آج ٹھکرانے کا دکھ ہے
وفا پانے کی دل میں آرزو تھی
تماشا بن کے رہ جانے کا دکھ ہے

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


145
میں جہاں جاؤں تعاقب میں ہے رسوائی مری
مجھ کو محفل میں کیے رکھتی ہے تنہائی مری
مشورہ اپنے معالج کا رکھا بالائے طاق
آج گھائل کر گئی خود سے مسیحائی مری
ڈھونڈتا ہوں نقص خالق کی ہر اک تخلیق میں
باعثِ شرمندگی ہے پھر تو زیبائی مری

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
90
گُلوں کی پالکی میں ہے بہاروں کی وہ بیٹی ہے
چہِیتی چاند کی روشن سِتاروں کی وہ بیٹی ہے
ہماری بیٹیاں سب کے لیئے تکرِیم والی ہیں
کِسی بھی ایک کی عِفّت سو چاروں کی وُہ بیٹی ہے
وُہ چلتی ہے تو راہوں میں سُریلے ساز بجتے ہیں
کِسی اُجلی ندی کے شوخ دھاروں کی وہ بیٹی ہے

ہزج مثمن ثالم


0
104
بیتے لمحے کل کی باتیں یاد آئیں
وہ رنگوں کی سب برساتیں یاد آئیں
دن دیکھا تو چہرہ تیرا یاد آیا
رات کے دیکھے زلف کی راتیں یاد آئیں
بیٹا ایم اے کر کے گھر میں بیٹھ گیا
اپنے وقت کی چار جماعتیں یاد آئیں

بحرِ ہندی/ متقارب مسدس مضاعف


0
1
876