میں بس وہ اپنے سکوں کی خاطر، ہی روز نظمیں تراشتا ہوں
|
بسا کے اک ماہ رُو کو دل میں، میں ان کی ذلفیں سنوارتا ہوں
|
وہ حْسن میں بے مثال ہیں ہی، مگر کبھی میں برائے الفت
|
لگا کے غازہ ذرا سا اْن پر، میں ان کی صورت نکھارتا ہوں
|
جہاں کی بے راہروی کے ڈر سے، میں ان سے باتیں ہزار کر کے
|
کبھی میں نظریں اتار کر پھر کبھی میں چادر سنوارتا ہوں
|
|