اس دل کو تیرے ساتھ محبت سی ہو گئی |
رہنا تمہارے ساتھ یوں عادت سی ہو گئی |
کرتے نہیں گلہ ذرا کسی بھی بات کا |
جیسے شکایتوں سے شکایت سی ہو گئی |
ہم کو زمانے بھر کی کوئی فکر نہیں ہے |
سارے جہاں سے ہم کو بغاوت سی ہو گئی |
ہوتے ہو ساتھ جب مرے دنیا حسیں لگے |
اک تیرے ساتھ سے یہ کرامت سی ہو گئی |
دل کو اے میرے یار کوئی وہم ہو گیا |
یا پھر تمہیں بھی مجھ سے محبت سی ہو گئی |
ہاں کھیلتے ہیں لوگ یہاں اہل دل کے ساتھ |
یہ کھیل کھیلنا تو روایت سی ہو گئی |
تم یار اجنبی ہو مگر اجنبی نہیں |
دلبر یہ تم سے کیسی قرابت سی ہو گئی |
رہنے لگا ہے فیضؔ ترے غم میں مبتلا |
ہر کام سے ہے اس کو فراغت سی ہو گئی |
معلومات