یہی سوچا ہے اب ہم نے زمانہ ساز ہونا ہے |
کسی کا راز رکھنا ہے کسی کا راز ہونا ہے |
کسی کا راستہ بن کر دکھانی ہے اسے منزل |
کسی کے ساتھ گمراہی میں ہم آواز ہونا ہے |
کسی کی خلوتوں میں جلوتوں کے رنگ بھرنے ہیں |
کسی کی جلوتوں میں خلوتوں کا ساز ہونا ہے |
آسمانِ زندگی پر راہبر ٹوٹے ہوئے |
راستے ٹوٹے ہوئے پرواز و پر ٹوٹے ہوئے |
چلتے چلتے تھک گئے ہیں آگہی کے شہر میں |
جیسے مٹی کے ہیولے چاک پر ٹوٹے ہوئے |
تیرگی کے کارواں منزل بہ منزل گام زن |
روشنی کے ساز و ساماں در بہ در ٹوٹے ہوئے |
حوادث کے بیابانوں میں دوڑے عمریں گزری ہیں |
اسے خوابوں کے دروازے پہ چھوڑے عمریں گزری ہیں |
مری آنکھوں کے پانی میں نہیں وہ کاٹ پہلے سی |
کہ دل میں درد کے لیموں نچوڑے عمریں گزری ہیں |
شکستہ آرزو کے در پہ اک مردہ سا دل جیسے |
پڑا ہے عشق سے ہر رشتہ توڑے عمریں گزری ہیں |
ہوا مسافر مسافروں کی ادا مسافر |
زمیں پہ خوشبو فلک پہ اڑتی گھٹا مسافر |
گئی رتوں کے حسین تحفے سنبھال رکھنا |
کہ جس سے قائم بہار تھی وہ چلا مسافر |
سنا ہے سنتا ہے رب دعائیں مسافروں کی |
ہمارے حق میں بھی کرتے جانا دعا مسافر |
جب سرِ مقتل کسی خود سر کا سر بکتا نہ تھا |
سب کے گھر محفوظ تھے کوئی بھی گھر بکتا نہ تھا |
لوگ قائم تھے حوادث میں چٹانوں کی طرح |
راستہ بکتا نہ تھا عزمِ سفر بکتا نہ تھا |
چاند کے ہالے بھی اپنے ساتھ تھے محوِ سفر |
کھوٹ کے بازار میں جب راہ بر بکتا نہ تھا |