کل فکر یہ تھی کشورِ اسرار کہاں ہے​
اب ڈھونڈ رہا ہوں کہ درِ یار کہاں ہے​
پھر حُسن کے بازار میں بکنے کو چلا ہوں​
اے جنسِ تدبر کے خریدار کہاں ہے​
​پھر روگ لگایا ہے مرے دل کو کسی نے​
اے چارہ گرِ خاطرِ بیمار کہاں ہے​

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
1
1543
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
2374
مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے
☆ ☆ ☆
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1153
شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؑ کا ہے
زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسینؑ کا ہے
فراتِ وقتِ رواں! دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے
زمین کھا گئی کیا کیا بلند و بالا درخت
ہرا بھرا ہے جو اب بھی شجر حسینؑ کا ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


5
3186
بنا ہے کون، الٰہی، یہ کارواں سالار؟
کہ اہلِ قافلہ مبہوت ہیں، دِرا خاموش
یہ کس کے رعب نے گُدّی سے کھینچ لی ہے زباں؟
کہ باوقار ہیں لب بستہ، بے نوا خاموش
لدا ہوا ہے سروں پر مہیب سناٹا
ہوا کے پاؤں میں زنجیر ہے، فضا خاموش

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1881
اے فنا انجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا
تیر گی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کھائے گا
اس تمرد کی روش سے بھی کبھی شرمائے گا
کیا کرے گا سامنے سے جب حجاب اٹھ جائے گا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
☆ ☆ ☆

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


899
کیا شعلۂ طرّار وہ اللہُ غنی ہے
کیا لرزشِ تابندگیِ سیم تنی ہے
رشکِ مہِ کنعاں ہے غزالِ خُتنی ہے
افشاں ہے کہ آمادگیِ دُر شکنی ہے
تاروں میں بپا غلغلۂ سینہ زنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


1
1249
تمہی کو آج مرے روبرو بھی ہونا تھا
اور ایسے رنگ میں جس کا کبھی گماں بھی نہ ہو
نگاہ تند غضب ناک دل کلام درشت
چمن میں جیسے کسی باغباں کی آنکھوں نے
روش کے ساتھ ہی ننھے سے ایک پودے کو
شگفتہ ہو کے سنورتے نکھرتے دیکھا ہو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1452
ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
لے کے دل سر رشتۂ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا
اس قدر بگڑا کے سر کھانے لگا
میں کہا اے دل ہوائے دلبراں
بس کہ تیرے حق میں کہتی ہے زباں

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


671
کیا زخم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا
کیا درد ہے جز دل کوئی محرم نہیں جس کا
کیا داغ ہے جلنا کوئی دم کم نہیں جس کا
کیا غم ہے کہ آخر کبھی ماتم نہیں جس کا
کس داغ میں صدمہ ہے فراقِ تن و جاں کا
وہ داغ ضعیفی میں ہے، فرزندِ جواں کا

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


1
3546
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


2450
مجھ کو محصور کیا ہے مری آگاہی نے
میں نہ آفاق کا پابند، نہ دیواروں کا
میں نہ شبنم کا پرستار، نہ انگاروں کا
اہلِ ایقان کا حامی نہ گنہگاروں کا
نہ خلاؤں کا طلب گار، نہ سیّاروں کا
☆☆☆

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1378
(ہسپانیہ کی سرزمین بالخصوص قرطبہ میں لکھی گئی)
سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات
سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب تار حریرِ دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز و شب ساز ازل کی فغاں

مفتَعِلن فاعِلن مفتَعِلن فاعِلن


0
1656
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے
تری تسبیح کو حاضر ہے لشکر خانہ زادوں کا
یہ آدم ہے بڑا باغی نرا طاغی کھرا کھوٹا
ڈبو دے گا لہو میں دہر کو یہ خاک کا پتلا
بشر پیغمبرِ شر ہے اِسے پیدا نہ کر مولیٰ

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


1848
یہ گنبدِ مینائی یہ عالمِ ِتنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہوا راہی میں بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی میں شعلۂ سینائی

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن


1538
پھر کوئی آیا دلِ زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
976
پھر چرخ زن ہے شیب پہ دورِ جواں کی یاد
کاخِ حرم پہ چھائی ہے کوئے بتاں کی یاد
بھیگی تھیں زمزموں کی مسیں جس کی چھاؤں میں
رہ رہ کر آ رہی ہے پھر اُس گلستاں کی یاد
پھر آئی ہے شباب کی رم جھم لیے ہوئے
شب ہائے ابر و باد کے خوابِ گراں کی یاد

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
283
آ ہم نشیں نمازِ صبوحی ادا کریں
خوشبوئے عود میں درِ میخانہ وا کریں
ہاں اٹھ کہ مُہرِ شیشۂ گُل رنگ توڑ کر
انسانیت کو دامِ خرد سے رہا کریں
باقی جو بچ رہا ہے کچھ ایمان خیر سے
اُس کو بھی آج پائے صنم پر فدا کریں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
248
بیدار تجربوں کو سلا کر چلی گئی
ہونٹوں سے وہ شراب پلا کر چلی گئی
خس خانۂ دماغ سے اٹھنے لگا دھواں
اِس طرح دل میں آگ لگا کر چلی گئی
میرے کتاب خانۂ ہفتاد سالہ کو
موجوں میں جو در آئے تو قلزم کراہ اٹھیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
329
جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی
کوئی شے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی
کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزند آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


977
دیارِ غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو
شدید کرب کی گھڑیاں گزار چکنے پر
کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں
کسی اِک ایسی جگہ سے ہو یوں ہی میرا گزر
جہاں ہجومِ گریزاں میں تم نظر آ جاؤ
اور ایک ایک کو حیرت سے دیکھتا رہ جائے!

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
220
کون سا اسٹیشن ہے؟
’ڈاسنہ ہے صاحب جی
آپ کو اُترنا ہے؟‘
’جی نہیں، نہیں ‘ لیکن
ڈاسنہ تو تھا ہی وہ
میرے ساتھ قیصر تھی

فاعِلن مفاعیلن


2120
تمھارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے
اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ
غنیمِ نور کا حملہ کہو اندھیروں پر
دیارِ درد میں آمد کہو مسیحا کی
رواں دواں ہوئے خوشبو کے قافلے ہر سو
خلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائی

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1408
شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقت رواں
جو کبھی سنگ گراں بن کے مرے سر پہ گرا
راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر
جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا
اشک بن کر مری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے
جو کبھی خونِ جگر بن کے مژہ پر آیا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1161
خبر نہیں تم کہاں ہو یارو
ہماری اُفتادِ روز و شب کی
تمہیں خبر مِل سکی کہ تم بھی
رہینِ دستِ خزاں ہو یارو
دِنوں میں تفرِیق مِٹ چُکی ہے
کہ وقت سے خُوش گُماں ہو یارو

مَفاعلاتن مَفاعلاتن


0
901
دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک
جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک
ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
339
اس ہوس میں کہ پکارے جرسِ گل کی صدا
دشت و صحرا میں صبا پھرتی ہے یوں آوارہ
جس طرح پھرتے ہیں ہم اہلِ جنوں آوارہ
ہم پہ وارفتگیِ ہوش کی تہمت نہ دھرو
ہم کہ رمازِ رموزِ غمِ پنہانی ہیں
اپنی گردن پہ بھی ہے رشتہ فگن خاطرِ دوست

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
337
آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
کھُل کے ہنسنے کے دن گیت گانے کے دن
پیار کرنے کے دن دل لگانے کے دن
آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


0
816
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1363
پیوست ہے جو دل میں، وہ تیر کھینچتا ہوں​
اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں​
​گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا​
اجمیر کی طرف سے جے پور جا رہا تھا​
​تیزی سے جنگلوں میں یوں ریل جا رہی تھی​
لیلیٰ ستار اپنا گویا بجا رہی تھی​

مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن


0
3803
وہ در کھلا میرے غمکدے کا​
وہ آ گئے میرے ملنے والے​
وہ آگئی شام، اپنی راہوں
میں فرشِ افسردگی بچھانے​
وہ آگئی رات چاند تاروں
کو اپنی آزردگی سنانے​

مَفاعلاتن مَفاعلاتن


0
516
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں​
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول​
ترکِ الفت کے دشت سے چن کر​
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول​
​تیری دہلیز پر سجا آئے​
پھر تری یاد پر چڑھا آئے​

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
793
گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ
ان کا آنچل ہے، کہ رخسار، کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1279
آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مد بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی
دلنشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی
حرفِ نفرت کوئی، شمشیرِ غضب ہو جیسے
تا ابد شہرِ ستم جس سے تباہ ہو جائیں
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
456
افق سے سحر مسکرانے لگی
مؤذن کی آواز آنے لگی
یہ آواز ہرچند فرسودہ ہے
جہاں سوز صدیوں سے آلودہ ہے
مگر اس کی ہر سانس میں متصل
دھڑکتا ہے اب تک محمد کا دل

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل


833
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیرِ غمِ الفت نہ کروں
اُس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں
سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں، خوگرِ آلام نہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
530
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


3221
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں محو ہیں بنانے میں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


3155
کوئی دیتا ہے بہت دور سے آواز مجھے
چھپ کے بیٹھا ہے وہ شاید کسی سیّارے میں
نغمہ و نور کے اک سرمدی گہوارے میں
دے اجازت جو تری چشمِ فسوں ساز مجھے
اور ہو جائے محبت پرِ پرواز مجھے
اڑ کے پہنچوں میں وہاں روح کے طیّارے میں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1164
خوشی تو ہے آنے کی برسات کے
پئیں بادۂ ناب اور آم کھائیں
سر آغازِ موسم میں اندھے ہیں ہم
کہ دِلّی کو چھوڑیں، لوہارو کو جائیں
سِوا ناج کے جو ہے مطلوبِ جاں
نہ واں آم پائیں، نہ انگور پائیں

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل


0
956
بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا

فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
637
آئی اگر بلا تو جگر سے ٹلی نہیں
ایرا ہی دے کے ہم نے بچایا ہے کِشت کو

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
255
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں فریاد

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
278
منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے
سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
آزادہ رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
356
چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا
چاند کا دائرہ لے، زہرہ نے گایا سہرا
رشک سے لڑتی ہیں آپس میں اُلجھ کر لڑیاں
باندھنے کے لیے جب سر پہ اُٹھایا سہرا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
347
سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو
خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1800
ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک سے رواں ہو
اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰ پہ فغاں ہو
اے ماتمیانِ شہِ مظلوم! کہاں ہو
بگڑی ہے بہت بات، بنائے نہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


0
369
گھستے گھستے پاؤں کی زنجیر آدھی رہ گئی
مر گئے پر قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی
سب ہی پڑھتا کاش، کیوں تکبیر آدھی رہ گئی
"کھنچ کے، قاتل! جب تری شمشیر آدھی رہ گئی
غم سے جانِ عاشقِ دل گیر آدھی رہ گئی"
بیٹھ رہتا لے کے چشمِ پُر نم اس کے روبروُ

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
588
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
693
اے مرتضیٰ، مدینۂ علمِ خدا کے باب!
اسرارِ حق ہیں، تیری نگاہوں پہ بے نقاب
ہے تیری چشم فیض سے اسلام کامیاب
ہر سانس ہے مکارم اخلاق کا شباب
نقشِ سجود میں، وہ ترے سوز و ساز ہے
فرشِ حرم کو جس کی تجلی پہ ناز ہے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
409