ہاتھوں میں لے چراغ میں ڈھونڈوں نجیب سے |
یہ وہ گہر ہے جو ملے شاید غریب سے |
جس سے ملا لگا کہ ملا ہوں رقیب سے |
چہرے مجھے تو سب کے لگے ہیں محیب سے |
دکھتے بہت تھے خوبرو جب فاصلے پہ تھے |
میک اپ کا تھا کمال دکھے جب قریب سے |
چرچے بہت تھے اس کے کہ لقمانِ وقت ہے |
مجھ کو لگا عطائی ملا جب طبیب سے |
رستے میں ہمسفر تو ملا رازداں نہیں |
ملتا ہے رازداں کوئی اچھے نصیب سے |
اس رینگتی حیات میں بس انتظار تھا |
لمحے فراق کے ہوئے مجھ کو صلیب سے |
منزل مری پہنچ سے بہت دور ہی رہی |
کرتا میں کیا کہ شغل تھے میرے عجیب سے |
دل پر کچھ ایسا بوجھ ہے رونے سے اب ہٹے |
روؤں گا جب ملوں گا میں اب عندلیب سے |
شاہد جہاں کھڑا ہوں میں دکھتا ہے سب مجھے |
پر کوئی پوچھتا نہیں مجھ سے نقیب سے |
معلومات