گل بے رنگ فضا میں بھی نکھار نہیں
بہار آئی تو ہے بادِ نو بہار نہیں
میں دیکھتا تھا اسے تب یہ سانس چلتی تھی
عجیب وقت ہے اس کا بھی انتظار نہیں
میں کوئے یار کو جاؤں کہ سوئے دار چلوں
اب اپنے فیصلوں پر مجھ کو اختیار نہیں
ڈرے ہیں لوگ مسیحا کے انتظار میں ہیں
کروں میں کیا کہ مجھے خود پہ اعتبار نہیں
عجب وبا ہے غریبوں کو مار رکھتی ہے
امیرِ شہر کا اس پر بھی دل فگار نہیں
جو گر پڑے تو اسے روند کر گذر جائیں
عجیب لوگ ہیں کوئی بھی شرم سار نہیں
میں اکیلا ہی لڑوں کوئی بھی جاں نثار نہیں
جو کٹ گروں تو کوئی بھی غم گسار نہیں

0
71