لد گئی خوشیاں سبھی آلام باقی رہ گئے
کاش پہلے سوچتا انجام باقی رہ گئے
نازک اندامی تری ہوگی کبھی ہو گی ضرور
اب نزاکت چل بسی اندام باقی رہ گئے
رہبرِ ملک و وطن تاویل کرتا رہ گیا
کوئی شے واضح نہ تھی ابہام باقی رہ گئے
جوہرِ علم و عمل تھا پستیوں میں گِر گیا
آدمیت مِٹ گئی اصنام باقی رہ گئے
مَے کدے ویران ہیں اُجڑے ہوئے ہیں کاخ و کُو
نا کہیں ساقی نہ صہبا جام باقی رہ گئے
مسجدوں سے سب نجیب و شعلہ آشام اُٹھ گئے
یہ ترا وہ میرا مسلک نام باقی رہ گئے
حُسن بھی بِکتا ہے یاں عقل و خرد بھی بالیقیں
کہہ دو جا کرمشتری سے دام باقی رہ گئے
کیا دھرا ہے مسجدوں میں رہنے دو چھوڑو امید
کر دیا فارغ خدا سے رام باقی رہ گئے

53