عشقِ نبی کو یوں ہم سینے لگا رہے ہیں
حجرہ حسین ان کا من میں سجا رہے ہیں
اس دل میں مصطفیٰ کا قصرِ حسیں بنے گا
آلِ نبی سے لَو ہم پکی لگا رہے ہیں
کب آئیں گی وہ گھڑیاں گنبد حسیں میں دیکھوں
جانے خدا وہ آقا کب پھر بلا رہے ہیں
ہوتے کٹھن ہیں لمحے درد و فراق والے
ہم یادوں میں نبی کی غم کو بھلا رہے ہیں
عاصی ہیں پُر خطا ہیں منزل سے دور تر ہیں
مجلس میں اس وجہ سے آنکھیں چرا رہے ہیں
دورہ ہے ظلمتوں کا کچھ عام اس جہاں میں
ان کے کرم سے بردے ایماں بچا رہے ہیں
کس کی مجال ہمدم دم مارے اس جہاں میں
محبوبِ رب ہیں محسن ہم کو نبھا رہے ہیں
محمود ان کے در پر جاتے ہیں بھاگ والے
آیا جنہیں بلاوا خوشیوں سے جا رہے ہیں

60