دل میں ارمانوں کے طوفان نہاں رکھتا ہے |
عشق اس کا مرے جذبوں کو جواں رکھتا ہے |
میں تو حیران سا بس اس کو سنا کرتا ہوں |
اس کا ہر لفظ محبت کا بیاں رکھتا ہے |
اس کی باتوں کو سنوں، آنکھ سے صورت دیکھوں |
باعثِ لطف و کرم ، چہرہ عیاں رکھتا ہے |
اس کے لہجے میں روانی ہے کہ بہتا دریا |
مئے عرفان کے فیضان رواں رکھتا ہے |
اس کی صحبت میں جو بیٹھوں تو سکوں ملتا ہے |
علم و عرفان کا وہ ایک جہاں رکھتا ہے |
اپنی گہرائی میں ہے، علم سمندر اس کا |
جیسے پاتال میں بھی کوئی مکاں رکھتا ہے |
اس کی باتوں میں سحر اس کا قلم جادو ہے |
غیرتِ دین تو ہے ، شیریں زباں رکھتا ہے |
وہ ہواؤں میں اڑاتا ہے مجھے ساتھ لئے |
دل مرا طاقتِ پرواز کہاں رکھتا ہے |
تم چلے آؤ تمہیں اس کی محبّت کھینچے |
میرا محبوب تو طارق یہ گماں رکھتا ہے |
معلومات