دل میں ارمانوں کے طوفان نہاں رکھتا ہے
عشق اس کا مرے جذبوں کو جواں رکھتا ہے
میں تو حیران سا بس اس کو سنا کرتا ہوں
اس کا ہر لفظ محبت کا بیاں رکھتا ہے
اس کی باتوں کو سنوں، آنکھ سے صورت دیکھوں
باعثِ لطف و کرم ، چہرہ عیاں رکھتا ہے
اس کے لہجے میں روانی ہے کہ بہتا دریا
مئے عرفان کے فیضان رواں رکھتا ہے
اس کی صحبت میں جو بیٹھوں تو سکوں ملتا ہے
علم و عرفان کا وہ ایک جہاں رکھتا ہے
اپنی گہرائی میں ہے، علم سمندر اس کا
جیسے پاتال میں بھی کوئی مکاں رکھتا ہے
اس کی باتوں میں سحر اس کا قلم جادو ہے
غیرتِ دین تو ہے ، شیریں زباں رکھتا ہے
وہ ہواؤں میں اڑاتا ہے مجھے ساتھ لئے
دل مرا طاقتِ پرواز کہاں رکھتا ہے
تم چلے آؤ تمہیں اس کی محبّت کھینچے
میرا محبوب تو طارق یہ گماں رکھتا ہے

1
84
پسندیدگی کا بہت شکریہ حامد زبیر صاحب

0