آئے جو اُس کی بزم میں سرشار سے گئے |
تیغِ نگاہِ یار کے اک وار سے گئے |
ملنے کی پیاس ، مل کے اُسے اور بڑھ گئی |
سمجھے تھے اب تو ، ہجر کے آزار سے گئے |
دیکھا اسے تو دید کی خواہش سوا ہوئی |
ہم اور ہو کے طالبِ دیدار سے گئے |
اک عشق ہی بچا ہے اسے دیکھنے کے بعد |
باقی تو سب مرَض دلِ بیمار سے گئے |
کرتے رہے اشارہ وہ حُسنِ ازل کی اور |
بل کب تھے اُس کے گیسوئے خمدار سے گئے |
سوچا تھا اُس سے باتیں ہزاروں کریں گے پر |
جب اُس کے سامنے ہوئے ، گُفتار سے گئے |
جلوے کا ایک تاب نہیں لا سکے تھے جو |
پھر اس کے بعد دید کی تکرار سے گئے |
طارق جو اُس کے پیار کے رستے پہ چل پڑے |
پھر جس طرف گئے ہیں کوئے یار سے گئے |
معلومات