زمین نکلے کبھی تو مدار سے باہر |
حدود اس کی اگر ہیں، حصار سے باہر |
ستارہ ٹوٹتا دیکھا تو ہو گا تم نے بھی |
پلک جھپکتے میں گرتا شرار سے باہر |
ہمیں تو ہجر نے ترسا دیا محبّت میں |
ہیں اور لذّتیں کیا وصلِ یار سے باہر |
میں ملک ملک میں جا کر نظارہ کر آیا |
ہے زندگی بڑی مشکل ، دیار سے باہر |
گلی گلی میں شفاعت کے دعویدار ہیں اب |
وہ پائے جاتے ہیں اکثر ، مزار سے باہر |
ہمارے گھر کا ہی رستہ وہ جلد ڈھونڈیں گے |
جو کر کے بیٹھے تھے ہم کو شُمار سے باہر |
ہم اور موسموں کو جلد اب تلاشیں گے |
بہار آ ئے گی گرد و غبار سے باہر |
ہے آسمان سے کب کا اتر چکا عیسیٰ |
تھے انتظار میں، جس کے منار سے باہر |
لگا کے سیڑھیاں آئے اتارنے تھے اُسے |
نظر وہ آتے ہیں اب ، اُس قطار سے باہر |
ہمیں یقین ہے طارق ، کہ ہم اُسے پا کر |
نکل کے آ گئے ہیں ، خلفشار سے باہر |
معلومات