چشمۂ فیضِ عام آیا ہے |
وہ جو ماہِ تمام آیا ہے |
دل کی تاریکیاں جو دور کرے |
آسماں سے کلام آیا ہے |
برکتیں اس سے پائیں قوموں نے |
جب وہ خیر الانام آیا ہے |
وہ جو پیاسے تھے لوگ صدیوں سے |
دوڑتے ہیں کہ جام آیا ہے |
اس سے لی ہے گلاب نے خوشبو |
وہ گلوں کا امام آیا ہے |
گفتگو جب کہیں بھی چلتی ہے |
بار بار اس کا نام آیا ہے |
کہتے پھرتے ہیں لوگ دُنیا میں |
رب کا عاشق غلام آیا ہے |
اس نے دھویا دلوں کو ہاتھوں سے |
اس کو یہ اہتمام آیا ہے |
جو بھی آیا ہے اس کی محفل میں |
پھر بہ صد احترام آیا ہے |
ساتھ اس کے جو چل دیے لیکن |
ان پہ مشکل مقام آیا ہے |
چاہنے والے بڑھ گئے اس کے |
اس کا لطف ایسا کام آیا ہے |
پیار سے دیکھا ساری گلیوں کو |
وہ جہاں صبح و شام آیا ہے |
جس کو آئی صدائے صلِّ علےٰ |
اور خدا کا سلام آیا ہے |
رشک طارق ہے خوش نصیبی پر |
اس کی امّت میں نام آیا ہے |
معلومات