لاکھ پردہ کرو چاہے اوجھل رہو میری نظروں سے بچ کر کہاں جاؤ گے
ایسی دیوار اب تک بنی ہی نہیں جسمیں حُسنِ مجسّم چھپا پاؤ گے
اپنے گھر سے نہ یوں بے حجابا چلو کیا عجب راستے میں ملیں شیخ بھی
اک نظر کی اجازت تو ہے شیخ کو کب تلک اپنا دامن بچا پاؤ گے
راستے میں رقیبوں کے گھر آئیں گے یہ بڑے مفسدی ہیں بڑے تند خُو
ہیلو ہائے پہ مجھکو شکایت نہیں بات آگے بڑی تو ستم ڈھاؤ گے
کتنے اعلےٰ و ارفع ہیں شمس و قمر جب ندا آئے گی سارے مرجائیں گے
کچھ تو خیرات و صدقہ کرو حُسن کا آخرش تُم بھی اک دن گزر جاؤ گے
کوئی دیکھے محبّت کی رنگینیاں کوئی جانے مرے دل کی بیتابیاں
پھول کھلنے لگے دل مچلنے لگےایسا لگتا ہے مجھ میں سما جاؤ گے
جب کبھی جانِ جاں حشر برپا ہؤا ہر طرف نفسِ آدم نظر آئیں گے
کون دیکھے گا حوریں تمہیں دیکھ کر بے سبب سارے عالم کو بہکاؤگے
مَیں نے تم سے کبھی کچھ نہ مانگا صنم چند لمحے ذرا خلوتوں کے مگر
کتنی عیدیں گئیں کتنی دیوالیاں کب تلک اپنے دلبر کو ترساؤ گے
کتنے حاسد ہمارے ہیں اے جانِ جاں مَیں بتاؤں تمہیں تو یقیں نہ کرو
سارے اپنے ہی ہیں تُم سے کیسے کہوں نام لے لوں تو گن گن کے گھبراؤ گے
مَیں بھی اک شاعرِ خستہ جاں ہوں صنم صاف شفّاف ہوں چاہے لے لو قسم
اس امیدِ حزیں کا بھی رکھ لو بھرم ورنہ اس بے نوا پہ ستم ڈھاؤ گے

0
64