دیکھ سکتے ہی نہیں نورِ عیاں سے آگے |
ہم پہنچ پائیں گے کیا اس کے بیاں سے آگے |
ہم تو اُڑ کر بھی ترے پاس چلے آتے اگر |
سوچتے ہم بھی کبھی دونوں جہاں سے آگے |
کیسے کہہ دوں ہے تعلّق اسے گہرا مجھ سے |
گفتگو بڑھتی نہیں سود و زیاں سے آگے |
کیسے سمجھاؤں اسے ہوش و خرد کی باتیں |
عشق میں دل ہے فنا وہم و گماں سے آگے |
کیا نہیں روح پہ میری ، کِھلے زخموں کے گلاب |
رنگ دیکھے ہی نہیں تم نے یہاں سے آگے |
تم سمجھتے رہے کچھ اور جو میں کہتا رہا |
تم نے سمجھی ہی نہیں بات زباں سے آگے |
میرے لفظوں کی صدا اور بھی اونچی ہو گی |
بند آواز کریں گے جو اذاں سے آگے |
جب بھی ٹپکا ہے لہو، اس سے صدا آئی ہے |
تم کو دینا ہے حساب ایک زماں سے آگے |
میرا جس روز سے ہے اس سے تعلّق طارق |
اس سے رشتہ ہے مرا رشتۂ جاں سے آگے |
معلومات