باقی ہے بھلے جسم مگر جان نہیں ہے |
یہ زندہ و جاوید کی پہچان نہیں ہے |
جو دل کہ شناسائے غم و رنج نہیں ہے |
وہ سنگ مگر ہے دلِ انسان نہیں ہے |
سوچو تو ذرا قوم کے غیور جیالو |
کیا ہے کہ خدا کے یہاں کچھ مان نہیں ہے |
ہو دست و گریباں کیوں اے ملت کے محافظ ! |
یہ دینِ ھدی جنگ کا میدان نہیں ہے |
سوچا بھی کبھی تو نے ہے اے مردِ جہاں گیر ! |
کیوں ہند میں تیرا کوئی سلطان نہیں ہے |
کیوں بانٹے ہوئے تجھ کو ہے صوبائی تعصب |
کیا تجھ میں ذرا غیرتِ ایمان نہیں ہے |
آسامی و بنگالی و پردیشی ، بہاری |
یہ ہندی مسلمانوں کی پہچان نہیں ہے |
ہے پیشِ نظر خوشہ و سنبل کا تحفظ |
خرمن کو جلاۓ جو وہ دہقان نہیں ہے |
جب تک نہ ہو رگ رگ میں ترے روحِ محمد ﷺ |
رکھنے سے " علی" نام مسلمان نہیں ہے |
اس دورِ ستمگر میں کوئی حاملِ قرآں |
مومن نہیں جو رہروِ زندان نہیں ہے |
ملت کی محبت پہ نچھاور جو کرے نا |
ہر چیز کہ وہ صاحبِ ایمان نہیں ہے |
۔میدانِ عمل سے نہ تو کترانا جا اے دل ! |
یہ بندۂ مومن کی کبھی شان نہیں ہے |
کلیوں سے کبھی گلشنِ ویراں نہ سجے گا |
جب غنچۂ ہستی میں ہی ارمان نہیں ہے |
اس شاعرِ نو بر کا مخاطب ہے خرد مند |
محکوم صفت، بزدل و نادان نہیں ہے |
میدانِ عمل کا ہے کوئی تیغِ جفاکش |
مجنوۓ ستم زارِ بیابان نہیں ہے |
اے ملت مرحوم کے ہمدرد و بہی خواہ |
ملت کے تحفظ کا کیوں سامان نہیں ہے |
اے سنجر و طغرل کے عزائم کے نگہباں |
تیری صفوں میں کیوں کوئی عثمان نہیں ہے |
ہے دل کو ترے شوخ حسینوں کی تمنا |
ملت پہ مگر دل ترا قربان نہیں ہے |
یوں تو تری ہستی بھی ہے بے باک و لیکن |
افسوس کہ تو خالد و سلمان نہیں ہے |
اڑتے ہی رہو گے خس و خاشاک کی مانند |
جب تک کہ تو بھی پیکرِ طوفان نہیں ہے |
ملتی ہے سیاست کو ترے دم سے ہی زینت |
اور تو ہے کہ اف رونقِ ایوان نہیں ہے |
حق بات یہی ہے کہ ہے میراثی ترا دیں |
جو قوم میں کوئی بھی نگہبان نہیں ہے |
ہو حکمت و دانائی فراست سے تہی دست |
تجھ میں کہ ذرا حکمتِ لقمان نہیں ہے |
شاہؔی تو اگر قوم کو یکجا نہ کیا تو |
سمجھوں گا تو بھی قوم کا نگران نہیں ہے |
معلومات