بجھے آگ عشق کی پھر فنا ہی نصیب میں لکھی جائیگی |
رہے فکر حاوی ہمیشہ اپنے تئیں بسی تو ہی نکھریگی |
جنہیں اپنوں سے جو لگاؤ و انس نہیں اگر ذرہ سا کبھی |
ہے یہ رنج اور ملال کی گھڑی جو ضمیر ہلائیگی |
جڑیں ایک دھاگے میں ہیرے جیسے پروئے ہوئے اگر سبھی |
تو مجال بھی کسے ڈسنے یا تمہیں جو دبوچنے کی ہوگی |
سہے ہیں بہت ہی زیادہ غم بھی یہاں تو میں نے رفیق جاں |
بچیں بھی رہیں جی، قریب والوں سے چوٹ پر بری آئیگی |
جئے مردہ جو بنے ہوئے، تو ملے جیتے رہنے سے کیا مزہ |
رہیں مسکراتے ہمیشہ تو ہی خوشی بھی چہرے پہ ابھریگی |
پڑھے ہم کتاب ادب و فنون کی احترام سے خوب گر |
چڑھے رنگ و حسن عمل پہ ایسے کہ عش زبان پکاریگی |
بسے قلب میں جو یقین، خوف خدا نصیؔر ہمارے جب |
تو بہشت سے ہی مناسبت متوقع اپنی بنائیگی |
معلومات