پڑھنے کو اس نے کب کہا کوئی کتاب دو
پوچھا گیا وہ بیتے دنوں کا حساب دو
پوچھا گیا تھا عام سا گرچہ وہ اک سوال
اس سے کہا گیا یہی فوراً جواب دو
بے تاب دیکھنے کو تمہیں لوگ تھے تو کیا
کس نے کہا تمہیں کہ الٹ تم نقاب دو
تم سے تو نیند اُڑنے کا شکوہ کیا تھا بس
مانگا نہیں یہ کہہ کے مجھے اپنے خواب دو
سورج کے ڈھلتے ڈھلتے یونہی شام ہو گئی
دیکھا تمہیں تو یوں لگا ہے ماہتاب ہو
حُسنِ نظر نے دیکھ کے حُسنِ ازل کہا
ہر پھول لازمی تو نہیں ہے گلاب ہو
طارق کتابِ زندگی کا جو ورق کُھلے
کیا جانے کون سا رقم اس پر نصاب ہو

0
44