زندگی میں کچھ اب تو خاص نہیں |
زندہ ہوں زندگی کی آس نہیں |
میری جو زندگی کا محور تھا |
اس سے بچھڑا ہوں پر اداس نہیں |
میں کہ واقف تھا اس کی رگ رگ سے |
اب تو اپنا بھی میں شناس نہیں |
میرے ہونٹوں پہ شہد ہے اب بھی |
میرے لہجے میں پر مٹھاس نہیں |
اب سمندر ہے میرے قبضے میں |
لیکن اک گھونٹ کی بھی پیاس نہیں |
رس خزاں سے کشید کرتا تھا |
اب بہاریں ہی مجھ کو راس نہیں |
موت پھیلی ہے ہر طرف شاہد |
جانے لوگوں میں کیوں ہراس نہیں |
معلومات