زندگی میں کچھ اب تو خاص نہیں
زندہ ہوں زندگی کی آس نہیں
میری جو زندگی کا محور تھا
اس سے بچھڑا ہوں پر اداس نہیں
میں کہ واقف تھا اس کی رگ رگ سے
اب تو اپنا بھی میں شناس نہیں
میرے ہونٹوں پہ شہد ہے اب بھی
میرے لہجے میں پر مٹھاس نہیں
اب سمندر ہے میرے قبضے میں
لیکن اک گھونٹ کی بھی پیاس نہیں
رس خزاں سے کشید کرتا تھا
اب بہاریں ہی مجھ کو راس نہیں
موت پھیلی ہے ہر طرف شاہد
جانے لوگوں میں کیوں ہراس نہیں

0
42