مختار کے گدا کی جھولی سدا بھری ہے
ثروت ملی جو اس کو شانِ سکندری ہے
زد میں کہاں خزاں کے آیا چمن کبھی وہ
جس پر کرم کی چھایا آقا نے خود رکھی ہے
کب خوف اس کو باقی سودو زیاں ہے رہتا
دانِ نبی سے جس کی کھوٹی بنی کھری ہے
صدقے حبیبِ رب ملا دہر کو ملا جو
اپنے حساب سے یہ اس کی تونگری ہے
رحمت ہیں کبریا کی خلقِ عظیم ہادی
شاخِ امید جن سے ہر آن ہی ہری ہے
یہ آگہی جسے بھی مولا کے در سے ملتی
وہ جانتا ہے ہستی کس دان سے سجی ہے
محمود عاصیوں میں تو حشر جا رہا ہے
سرکار کرم کر دیں مولا کہے بری ہے

54