کیا حقیقت ہے کیا فسانہ ہے
ایک دن سامنے تو آنا ہے
قدریں بدلی ہیں وقت کا ہے اثر
یا ترقی کا شاخسانہ ہے
اب رسائی ہے علم تک سب کی
ہاتھ میں علم کا خزانہ ہے
پھر بھی جاہل ہیں رہنما اکثر
مال و دولت انہیں بنانا ہے
اب نہیں دور بیں نظر ان کی
فکر ہے جلد ان کو جانا ہے
قوم کی فکر ہو بھلا کیونکر
نام دنیا میں بس کمانا ہے
کون پوچھے کہاں سے مال آیا
گھر نیا ہے یا پھر پرانا ہے
کتنے وعدے کئے جو پورے ہوئے
کس نے اب کس کو آزمانا ہے
آدمی کا ہے انحطاط ہوا
یا کہ بدلا ہوا زمانہ ہے
آگے دیکھیں کھلے گا کیا منظر
وقت آگے ہوا روانہ ہے

0
80