عقل کی اس سے امّید ہم کیا کریں
عدل کی اس کو تاکید ہم کیا کریں
دھوپ میں بیٹھ پایا نہ جو عمر بھر
سائے کی اُس سے امّید ہم کیا کریں
چھوڑ بیٹھا ہے جو اقربا اپنے ہی
پیار کی اُس سے تمہید ہم کیا کریں
زندگی جس نے سب کی بنائی مذاق
عہد کی اس سے تجدید ہم کیا کریں
وہ اگر کر نہیں پاتا ہے کچھ یقیں
نقل کی اس سے تردید ہم کیا کریں
آتے جاتے پڑے جب ہماری نظر
لوٹ کر اس پہ تنقید ہم کیا کریں
چل رہے ہیں جو ہم اپنی ہی راہ پر
بے وجہ اس کی تقلید ہم کیا کریں
وہ غلط کام کہتا ہے کرتا بھی ہے
پھر بھلا اس کی تائید ہم کیا کریں
آپ ہی موت اپنی وہ مر جائے گا
طارق اب اس پہ تشدید ہم کیا کریں

1
31
بہت شکریہ ناصر ابراہیم صاحب!

0