ہم طرزِ تکلّم سے اندازہ لگا لیتے
وہ بات اگر کرتے ہم بات نبھا لیتے
اس رشتۂ پیہم کی اتنی سی کہانی ہے
رُوٹھے جو کبھی ہم سے ،ہم ان کو منا لیتے
سنتے ہیں فقط اُن کی خاطر ہی جہاں بھر کی
گر اتنا سمجھ جاتے وہ پاس بٹھا لیتے
وہ فیض کا مظہر ہے جس در پہ کھڑے ہیں ہم
وہ آتے یہاں پر جب ،اس در سے دُعا لیتے
پاتے ہیں مریض آ کر اعجازِ مسیحائی
خود دیکھا ہےمُردوں کو پھونکوں سے جِلا لیتے
یک طرفہ محبّت سے گر بات بڑھی ہوتی
کچھ سُنتے ہماری وہ کچھ اپنی سنا لیتے
مخلوق خدا کی جو پیدا ہوئی دنیا میں
ہم اس کی مدد کر تے توحید اپنا لیتے
طارق یہی مقصد ہے تیرا جو یہاں آیا
جیون تو بِتانا تھا اچھے سے بِتا لیتے

95