وارا یہ دل کسی پہ تو ہارا نہیں اسے |
کیا ہم نے رکھا جان سے پیارا نہیں اسے |
اس پر جو ہے بھروسہ کسی اور پر نہیں |
ہم نے بھی بے سبب تو پکارا نہیں اسے |
لاکھوں ہی جاں نثار پڑے اس کے در پہ ہیں |
اک ہم سے دوستی کا سہارا نہیں اسے |
اک بحرِ بیکراں ہے محبّت کا چار سُو |
ساحل سمندروں کا کنارا نہیں اسے |
وعدہ کیا تھا اس سے نبھائیں گے ساتھ ہم |
سو ہم میں چھوڑنے کا تو یارا نہیں اسے |
دعوٰی تھا ہے اسی کی امانت یہ جان و مال |
گرچہ دیا تو سارے کا سارا نہیں اسے |
ہیں بد نصیب پردے پڑے جن کی آنکھ پر |
جھٹلا دیا ہے کہہ کے ہمارا نہیں اسے |
طارق دعا میں یاد وہ رہتا ہے ہر نفس |
بھولا تو کوئی ہجر کا مارا نہیں اسے |
معلومات