دل کو جب فرقت کا صحرا دیجئے
آنکھ کو اشکوں کا دریا دیجئے
آئینہ یوں دل کا ہو جائے گا صاف
حسن کا دیدار کروا دیجئے
گر ندامت اس پہ ہے جو کر چکے
دل کو پچھتاوے کا جذبہ دیجئے
ہم رگوں میں خون بن کر چل پڑے
دل کے آنگن میں بھی رستا دیجئے
آس جو ٹوٹی تو مر جائیں گے ہم
اب تو تصویروں کو چہرہ دیجئے
مجھ کو سمجھانے سے کیا بدلیں گے دن
گردشِ دوراں کو سمجھا دیجئے
میں انا الحق کہہ بھی دوں اس بار تو
مجھ کو سولی پر نہ لٹکا دیجئے
دل کے آئینے سے بھی پوچھیں ذرا
یونہی منبر پر نہ فتویٰ دیجئے
کھا رہے ہیں پھل جو صبر و شکر کے
اب انہیں جنَّت کا میوہ دیجئے
منتظر ہے کب سے طارق آپ کا
لُطف کا اظہار فرما دیجئے

0
72