تُجھ کو پانے کی تمنّا جو کیا کرتا ہوں |
رات کے پچھلے پہر اُٹھ کے دُعا کرتا ہوں |
دشتِ تنہائی میں ڈر جاتا ہوں سنّاٹے سے |
خامشی، دے کے صدا ، توڑ دیا کرتا ہوں |
میرے خوابوں کی جو تعبیر سہانی ہو گی |
روز کچھ خواب نئے دیکھ لیا کرتا ہوں |
تیرا ملنا ہے خوشی ، مل کے بچھڑنا مشکل |
بس ترے وصل کی آشا سے جیا کرتا ہوں |
خود فریبی تو نہیں اتنا یقیں ہے خود پر |
جب پکاروں تری آواز سنا کرتا ہوں |
زندگی کا مجھے مقصد جو سمجھ آیا ہے |
تیرے بندوں سے محبّت سے ملا کرتا ہوں |
گو جنوں عشق میں ہے ، ہوش ہے اتنا باقی |
چاک دامن ہو اگر خود ہی سیا کرتا ہوں |
منتظر رہتا ہوں کب مجھ کو پلائے ساقی |
مئے عرفان کے میں جام پیا کرتا ہوں |
جب کبھی زخم کوئی دل پہ لگائے طارق |
کسی بیمار کی میں جا کے دوا کرتا ہوں |
معلومات