تُجھ کو پانے کی تمنّا جو کیا کرتا ہوں
رات کے پچھلے پہر اُٹھ کے دُعا کرتا ہوں
دشتِ تنہائی میں ڈر جاتا ہوں سنّاٹے سے
خامشی، دے کے صدا ، توڑ دیا کرتا ہوں
میرے خوابوں کی جو تعبیر سہانی ہو گی
روز کچھ خواب نئے دیکھ لیا کرتا ہوں
تیرا ملنا ہے خوشی ، مل کے بچھڑنا مشکل
بس ترے وصل کی آشا سے جیا کرتا ہوں
خود فریبی تو نہیں اتنا یقیں ہے خود پر
جب پکاروں تری آواز سنا کرتا ہوں
زندگی کا مجھے مقصد جو سمجھ آیا ہے
تیرے بندوں سے محبّت سے ملا کرتا ہوں
گو جنوں عشق میں ہے ، ہوش ہے اتنا باقی
چاک دامن ہو اگر خود ہی سیا کرتا ہوں
منتظر رہتا ہوں کب مجھ کو پلائے ساقی
مئے عرفان کے میں جام پیا کرتا ہوں
جب کبھی زخم کوئی دل پہ لگائے طارق
کسی بیمار کی میں جا کے دوا کرتا ہوں

1
73
پسندیدگی کا بہت شکریہ ارشد سراغ صاحب!

0