ہر اک جہاں میں چلتے جن کے اشارے ہیں
خلقِ خدا کو حاصل ان سے سہارے ہیں
قدموں تلے نبی کے آئے ہیں کل جہاں
عکسِ جمالِ دلبر ان کے نظارے ہیں
ہستی درخشاں ساری ان کی ضیا سے ہے
فیضان لیتے جن سے چندہ ستارے ہیں
مطلوبِ انبیا کا قادر کی ہے رضا
محبوب ربِ عالم دلبر ہمارے ہیں
جن کے نگر کے منظر اعلیٰ ہیں سوچ سے
کچھ لمحے ان کے در پر ہم نے گزارے ہیں
ہے تازگی جہاں میں عرضِ حجاز سے
ہستی میں رنگ آئے بطحا سے سارے ہیں
محمود بھول جاؤ فردا کی بے کلی
داتا سخی سے تم کو حاصل سہارے ہیں

54