گوروں سے تو ملی آزادی پر کالوں نے لَوٹا
یعنی اس بازار کے باسی دلّالوں نے لُوٹا
کسے دکھائیں دل کے دکھڑے کون لگائے مرہم
مجھے عمامہ پگڑی ننگے سر والوں نے لُوٹا
جس کو ہو مقصود بچانا اسے کریں مقفّل
کون بچائے ایسا گھر جس کو تالوں نے لُوٹا
قورمہ مرغ پلاؤ کی تو بات ہی جانے دیجے
اب تو سبزی مرچ مسالے سب دالوں نے لُوٹا
جمہوری دستور نہیں یہ مُک مُکا تھا لوگو
زرداری سے مل کر گنجے سر والوں نے لوٹا
زوجہ کہتی رہتی ہے یہ نہیں ہیں میرے بھائی
پھر یہ کون ہیں چور اچکّے جن سالوں نے لُوٹا
کھربوں کے منصوبوں میں یہ اربوں مال بنائیں
تیرا گلشن قائدِ اعظم دلاّلوں نے لُوٹا

44