زباں چپ اگر ہو بھی جائیں
نشاں کیسے پر بھول پائیں
کبھی بھُولی بسری بھی یادیں
ابھر کر دریچہ سے جھانکیں
جو کچھ نقش ان مٹ سے رہتے
وہی چھاپ تادیر چھوڑیں
چھپانے سے بھی جو چھپے نا
مہک جیسی ہر سمت پھیلیں
پڑے عشق سے سابقہ تو
خبر ہو چلے گر چھپائیں
شرارت سے ہیجان برپا
جوانی میں تب ہوش کھوئیں
مسلسل خیالوں کا تانتا
غمِ ہجر رہ رہ ستائیں
جدائی ہے ناصر مصیبت
تڑپ وصل کی پھر جگائیں

0
98