انہیں سر ڈھانپنے کا گر کہیں سر درد رکھتے ہیں
چھپا کر عیب اپنے ،خود کو وہ بے پرد رکھتے ہیں
حیا عورت کا زیور ہے پہن کر گھر سے نکلے جب
نگاہیں پھر جُھکا کر اپنی ، اکثر مرد رکھتے ہیں
سُنا کر حالِ دل اپنا ، چھپا کر درد رکھتے ہیں
وہ کترا کر گزرتے ہیں جو چہرہ زرد رکھتے ہیں
زبوں حالی میں رہ کر خود ، کسی کا حال کیا پوچھیں
مجھے حیرت ہے ان پر جو دلِ بے درد رکھتے ہیں
ہمیں ان سے گلہ شکوہ نہیں ہوتا مگر پھر بھی
مزاج اپنا ، ہو رنجش بھی اگر ، وہ سرد رکھتے ہیں
بہاروں میں شجر سارے ہی سبزہ اوڑھ لیتے ہیں
خزاں میں گرچہ تھوڑی دیر پتے زرد رکھتے ہیں
جُدائی میں ہماری یاد ان کو آ رہی ہوگی
اکیلے ہوں اگر تو رابطہ سب فرد رکھتے ہیں
خدا کی راہ میں چلتے ہوئے ہم پر جو پڑتی ہے
سر آنکھوں پر ہم اس کے راستے کی گرد رکھتے ہیں
کہیں طارق تمہارے دل میں بھی کوئی شکایت ہو
غنیمت ہے کہ تم جیسے دلِ ہمدرد رکھتے ہیں

1
86
پسندیدگی کا بہت شکریہ ناصر ابراہیم صاحب

0