انہیں سر ڈھانپنے کا گر کہیں سر درد رکھتے ہیں |
چھپا کر عیب اپنے ،خود کو وہ بے پرد رکھتے ہیں |
حیا عورت کا زیور ہے پہن کر گھر سے نکلے جب |
نگاہیں پھر جُھکا کر اپنی ، اکثر مرد رکھتے ہیں |
سُنا کر حالِ دل اپنا ، چھپا کر درد رکھتے ہیں |
وہ کترا کر گزرتے ہیں جو چہرہ زرد رکھتے ہیں |
زبوں حالی میں رہ کر خود ، کسی کا حال کیا پوچھیں |
مجھے حیرت ہے ان پر جو دلِ بے درد رکھتے ہیں |
ہمیں ان سے گلہ شکوہ نہیں ہوتا مگر پھر بھی |
مزاج اپنا ، ہو رنجش بھی اگر ، وہ سرد رکھتے ہیں |
بہاروں میں شجر سارے ہی سبزہ اوڑھ لیتے ہیں |
خزاں میں گرچہ تھوڑی دیر پتے زرد رکھتے ہیں |
جُدائی میں ہماری یاد ان کو آ رہی ہوگی |
اکیلے ہوں اگر تو رابطہ سب فرد رکھتے ہیں |
خدا کی راہ میں چلتے ہوئے ہم پر جو پڑتی ہے |
سر آنکھوں پر ہم اس کے راستے کی گرد رکھتے ہیں |
کہیں طارق تمہارے دل میں بھی کوئی شکایت ہو |
غنیمت ہے کہ تم جیسے دلِ ہمدرد رکھتے ہیں |
معلومات