اُس نے پوچھا تو مُدّعا ہم سے |
کیسے آئے ہو ، یہ کہا ہم سے |
بد گُمانی تو تھی زمانے کو |
اُس کو کوئی نہ تھا گِلہ ہم سے |
ہم نے کب دوسروں کی پروا کی |
فکر تھی وہ نہ ہو خفا ہم سے |
کشتئ نوح میں ہیں سوچیں اب |
چاہتا کیا ہے ناخُدا ہم سے |
زندگی ہے سو وہ اسی کی ہے |
اور مانگے گی کیا قضا ہم سے |
سوچ لو ! راہ یہ کٹھن ہے ذرا |
اُس نے پوچھا تھا بارہا ہم سے |
چل پڑے ہم بھی ساتھ ساتھ اُس کے |
اور کتنے تھے با وفا ہم سے |
جان طارق نثار اُس پہ کی |
اِس سے بڑھ کر نہ کچھ ہوا ہم سے |
معلومات