الفاظ میں جادو ہے معانی میں نہیں ہے
سو اُس کی طلب میری کہانی میں نہیں ہے
وہ پیاس بجھاتا ہے ڈبوتا نہیں تم کو
گہرائی تو دریا میں ہے پانی میں نہیں ہے
ہر کوئی بڑھاپے میں تو ہو زاہد و عابد
کیا توبہ اگرعہدِجوانی میں نہیں ہے
دل اس کی محبّت میں فدا ہو تو بہے یوں
وہ تیزی تو دریا کی روانی میں نہیں ہے
جو شیریں زبانی نے دکھائے ہیں کرشمے
ہوتا وہ اثر تلخ بیانی میں نہیں ہے
جو دل سے نکلتی ہے دعا ، دیکھا ہے تم نے
کیا اس کی پہنچ عرشِ مکانی میں نہیں ہے
نعمت جو میسّر ہے وہاں اگلے جہاں میں
اس جیسی کہیں دنیا ءِ فانی میں نہیں ہے
طارق جو ملے تم کو محبّت کہیں لے لو
سوچو یہ کسی مول گرانی میں نہیں ہے

0
67