دیر تک رات کو محفل تو جمی رہتی ہے |
پھر بھی شکوہ ہے محبّت کی کمی رہتی ہے |
تم بھی ان آنکھوں پہ لکھتے رہے غزلیں لیکن |
یہ نہ پوچھا کبھی کیوں ان میں نمی رہتی ہے |
وہ نہیں بھولتے وابستہ ہوں یادیں جن سے |
دوست مل جاتے ہیں پر ان کی کمی رہتی ہے |
حوصلے پر انہیں کچھ داد تو دینا ہو گی |
جن کے ہونٹوں پہ ہنسی دل میں غمی رہتی ہے |
وہ کبھی آئے تھے جس راہ سے ملنے مجھ کو |
یہ نگہ آج بھی اس رہ پہ جمی رہتی ہے |
سامنا ان سے اچانک جو کبھی ہو جائے |
دل کی دھڑکن مری کچھ دیر تھمی رہتی ہے |
کر چکا سارے مناسک ہی میں حج کے پورے |
اک کمی باقی ہے شیطاں کی رمی رہتی ہے |
طارق آؤ تو کبھی باتیں کریں گے اس کی |
دیکھنا پھر کہاں برسات تھمی رہتی ہے |
معلومات