ابتدا انتہا تو نہیں ہے پتا |
میں تو سمجھا یہی علم کی انتہا |
یہ بتایا گیا ہے مجھے بارہا |
عشق میں ہو نہ جانا کہیں مبتلا |
پی کے امرت کا پیالہ جو رسوا ہوا |
خُلد سے آدمی کو نکالا گیا |
پھر بھی آدم کو احساس جب یہ ہوا |
تھی خطا اس کی قدموں میں وہ جا گرا |
کون صحرا میں کشتی بناتا رہا |
کس کا بیٹا رہا سامنے ڈوبتا |
کون نمرود کے سامنے ڈٹ گیا |
آگ میں کود کر کون تھا بچ گیا |
حُسنِ یوسف کو قیدی تھا کس نے کیا |
تھی محبّت زلیخا کی یا تھی انا |
دیکھنے کی جو خواہش ہوئی برملا |
وہ ہوا طور پر جا کے جلوہ نما |
کس کے آگے ہُوا ہیچ تختِ سبا |
کون سمجھا پرندوں نے دی جو صدا |
کس کو صحرا میں چھوڑا تھا بے یار سا |
جس کے قدموں میں چشمہ رواں ہو گیا |
کس کے کہنے سے بیٹا فدا ہو گیا |
کس نے اس کو زمیں پر لِٹا بھی دیا |
مردِ میدان تھا کون زخمی ہوا |
تھا لہو جس کے قدموں میں جب وہ چلا |
یہ سبھی عشق میں تھے ہوئے مبتلا |
ورنہ ان کو جنوں تو نہیں تھا ہوا |
جس نے بھیجے یہ سارے شہِ دوسرا |
ان کو اپنی حفاظت میں رکھتا رہا |
ہں سبھی اس کی تخلیق کا معجزہ |
جس نے یہ سب دکھایا مرا ہے خدا |
معلومات