روح کی تشنگی مے خانے میں لے آئی ہے
کیوں ترے در پر یہ انجانے میں لے آئی ہے
جب چلی یاد تری ساتھ تو ایسا نہ لگا
وہ محلّے کسی بیگانے میں لے آئی ہے
روشنی ڈھونڈنے نکلا جو میں دل کے اندر
یوں لگا تیرگی تہہ خانے میں لے آئی ہے
جب ترے وصل کی امّید مرے ساتھ چلی
دل اٹھا کر مرا نذ رانے میں لے آئی ہے
داستاں میری سنی تُو نے جو ہمدردی سے
گفتگو درد کو افسانے میں لے آئی ہے
تُو نے دیکھا جو مجھے ایسے لگا تیری نظر
نشّہ بھر کر کسی پیمانے میں لے آئی ہے
کوئی نسبت تو رہی ہو گی کہیں مجنوں سے
کیوں یہ قسمت مجھے ویرانے میں لے آئی ہے
کون چھوڑے گا کبھی ایسی محبّت طارق
ایسی تبدیلی جو دیوانے میں لے آئی ہے

0
57