منزلیں کرنی ہیں مجھ کو سرنگوں
اب سمایا سر میں ہے یہ ہی جنوں
اپنے ہونے کی نشانی خود کو دوں
کچھ نہ کرنے کی یہ عادت چاک دوں
ہے نصیبوں میں سفر تو اب چلوں
راہ میں ہوں جو بھی کانٹے ان کو میں
سب سے پہلے اپنی پلکوں سے چنوں
ہمسفر تھک ہار کر جب بیٹھ جائیں
ان کے سر پر دھوپ میں سایا بنوں
وہ اگر کچھ گنگنائیں میں سنوں
ان کے گیتوں کے فسوں پر سر دھنوں
زادِ راہ اپنی خوشی سے ان کو دوں
راہ کے دکھ درد ہنس کر میں سہوں
ختم ہو جائے سفر تو میں رکوں
اس سفر کی داستاں پھر میں لکھوں
چند دن آرام کر کے پھر سے میں
ایک انجانے سفر پر میں چلوں

0
70