منزلیں کرنی ہیں مجھ کو سرنگوں |
اب سمایا سر میں ہے یہ ہی جنوں |
اپنے ہونے کی نشانی خود کو دوں |
کچھ نہ کرنے کی یہ عادت چاک دوں |
ہے نصیبوں میں سفر تو اب چلوں |
راہ میں ہوں جو بھی کانٹے ان کو میں |
سب سے پہلے اپنی پلکوں سے چنوں |
ہمسفر تھک ہار کر جب بیٹھ جائیں |
ان کے سر پر دھوپ میں سایا بنوں |
وہ اگر کچھ گنگنائیں میں سنوں |
ان کے گیتوں کے فسوں پر سر دھنوں |
زادِ راہ اپنی خوشی سے ان کو دوں |
راہ کے دکھ درد ہنس کر میں سہوں |
ختم ہو جائے سفر تو میں رکوں |
اس سفر کی داستاں پھر میں لکھوں |
چند دن آرام کر کے پھر سے میں |
ایک انجانے سفر پر میں چلوں |
معلومات