جو اپنے ہاتھ سے میں نے کلام لکھا تھا |
بڑے ہی پیار سے اس میں سلام لکھا تھا |
پرانے کاغذوں میں وہ کہیں پڑا ہو گا |
وہ خط جو میں نے کبھی تیرے نام لکھا تھا |
جنوں کے رنگِ محبّت کی روشنائی میں |
جو دل پہ گزری ، وہ سارا پیام لکھا تھا |
ہیں زندگی کا اثاثہ مرا ، وہی کچھ دن |
کہ در پہ تیرے جو ، میرا قیام لکھا تھا |
نصیب اس کے ہمیشہ ، ہوئے ہیں تابندہ |
کہ تیرے سامنے ، جس کا مقام لکھا تھا |
کبھی جو آۓ تصوّر میں وہ حسیں لمحے |
وہ ہوں گی خواہشیں پوری ، تمام لکھا تھا |
میں طارق ایسے جیا ہوں کہ جاں لُٹا کر بھی |
اسی کے نام پہ جینا ، مدام لکھا تھا |
معلومات