مرے لہو کو وہ اک دن شراب کر دے گا
چبھے ہوئے ہیں جو کانٹے گلاب کر دے گا
اندھیرا ساتھ مرے گر گر کے پھر سنبھلتا ہوں
وہ سنگِ راہ کو ہی آفتاب کر دے گا
جو مجھ کو زخم لگے ان کا شمار کرنا ہے
ملے گا جب تو وہ ان کا حساب کر دے گا
کئی سوال ہیں ہونٹوں پہ انتظار میں ہوں
وہ ایک لمس سے ان کا جواب کر دے گا
بہت کٹھن تھا سفر درد ساتھ ساتھ چلا
وہ اختتامِ سفر اس کو خواب کر دے گا

0
89