مرے لہو کو وہ اک دن شراب کر دے گا |
چبھے ہوئے ہیں جو کانٹے گلاب کر دے گا |
اندھیرا ساتھ مرے گر گر کے پھر سنبھلتا ہوں |
وہ سنگِ راہ کو ہی آفتاب کر دے گا |
جو مجھ کو زخم لگے ان کا شمار کرنا ہے |
ملے گا جب تو وہ ان کا حساب کر دے گا |
کئی سوال ہیں ہونٹوں پہ انتظار میں ہوں |
وہ ایک لمس سے ان کا جواب کر دے گا |
بہت کٹھن تھا سفر درد ساتھ ساتھ چلا |
وہ اختتامِ سفر اس کو خواب کر دے گا |
معلومات