جنوں میں جیسی بھی گزری گزارے بیٹھا ہوں
یہ مت سمجھنا خرد کے سہارے بیٹھا ہوں
مجھے تو اس نے کہا تھا کہ اب چلے آؤ
میں انتظار میں اب بھی تمہارے بیٹھا ہوں
تم آؤ کچے گھڑے پر کہا تھا کس نے تمہیں
تمہیں پتہ تھا میں دریا کنارے بیٹھا ہوں
پہاڑ کھود کے نہریں نکالنی ہیں مجھے
کہا یہ کس نے تمہیں شرط ہارے بیٹھا ہوں
تمہارے ہجر میں چمکے ہیں جو سرِ مژگاں
میں اشک اپنے سمجھ کر ستارے بیٹھا ہوں
جو سن سکو تو کہوں داستان اپنی بھی
میں کھو کے دوست بہت اپنے پیارے بیٹھا ہوں
فنا کے راستے پر چل پڑے تو کیا پروا
میں دیکھ کر یہاں طارق اشارے بیٹھا ہوں

0
54