آپ آئیں گے اگر دل میں تو راحت ہو گی
اس سے کیا اور بڑی پھر کوئی جنَّت ہوگی
لفظ محتاج اگر ہوں بھی زباں دانی کے
وہ سمجھ لے گا اشارے ، جو محبّت ہو گی
وہ مجھے خود سے جُدا کر کے تو پچھتائے گا
اُس کو بھی میری طرح اپنی ضرورت ہو گی
میں نے یہ سوچ کے جذبات پہ قابو رکھا
ایک آنسو بھی گرا گر تو ندامت ہو گی
ہم تو مل جل کے کبھی روتے کبھی ہنستے تھے
ہم پہ رونے کی کسے دنیا میں فرصت ہو گی
پوچھنے آتے رہے لوگ تو بیماری میں
ہاں مگر اس کے بنا کیسے عیادت ہو گی
کبھی بن جا تا ہے مجبوری یہ چپ رہنا بھی
کھول دی ہم نے زباں گر تو شکایت ہو گی
حشر کے روز بھلا کون کہے گا مجھ سے
تم کو معلوم تھا طارق کہ قیامت ہو گی

2
69
بہت شکریہ شاہ رئیس صاحب!

0
پسندیدگی کا بہت شکریہ ملک وقاص صاحب!

0