آپ آئیں گے اگر دل میں تو راحت ہو گی |
اس سے کیا اور بڑی پھر کوئی جنَّت ہوگی |
لفظ محتاج اگر ہوں بھی زباں دانی کے |
وہ سمجھ لے گا اشارے ، جو محبّت ہو گی |
وہ مجھے خود سے جُدا کر کے تو پچھتائے گا |
اُس کو بھی میری طرح اپنی ضرورت ہو گی |
میں نے یہ سوچ کے جذبات پہ قابو رکھا |
ایک آنسو بھی گرا گر تو ندامت ہو گی |
ہم تو مل جل کے کبھی روتے کبھی ہنستے تھے |
ہم پہ رونے کی کسے دنیا میں فرصت ہو گی |
پوچھنے آتے رہے لوگ تو بیماری میں |
ہاں مگر اس کے بنا کیسے عیادت ہو گی |
کبھی بن جا تا ہے مجبوری یہ چپ رہنا بھی |
کھول دی ہم نے زباں گر تو شکایت ہو گی |
حشر کے روز بھلا کون کہے گا مجھ سے |
تم کو معلوم تھا طارق کہ قیامت ہو گی |
معلومات