ہمیشہ سے مرے دل میں کوئی آباد رہتا ہے
جو سچ اور جھوٹ کی پہچان میں آزاد رہتا ہے
میں چپ رہ کر سنا کرتا ہوں پھر پڑتا ہوں سوچوں میں
عمل اس کے کہے پر گر کروں وہ شاد رہتا ہے
تمہیں کیسے سُنائیں حال اپنی بے خودی کا ہم
اسیرِ زلفِ جاناں ہو جو کب آزاد رہتا ہے
بھلے دن تھے کہ مل جاتے تھے کوئی آشنا چہرے
مگر اب گاؤں میں کوئی کہاں آباد رہتا ہے
چمن کو گلفروشوں نے کیا خالی گلابوں سے
وہاں بلبل کوئی کرتا ہوا فریاد رہتا ہے
پرندے اڑ گئے اپنے گھروں کو شام سے پہلے
قفس تھامے مگر اب بھی وہاں صیّاد رہتا ہے
مجھے تو پھونک کر رکھنا قدم ہے جس طرف جاؤں
یہاں ہر موڑ پر میرا کوئی نقّاد رہتا ہے
انا الحق کی صدا ئیں اب بھی اٹھتی ہیں نشیمن میں
اگرچہ ہر گلی میں اب کوئی جلاّد رہتا ہے
مجھے تو صبر کرنا ہے مجھےحق بات کہنی ہے
مرے مدِّ نظر ہر دم مِرا اُستاد رہتا ہے
تری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے طارق وہ ہر لمحے
کہ جس کے اک اشارے پر پڑا شدّاد رہتا ہے

1
73
پسندیدگی کا شکریہ ابراہیم ناصر صاحب!

0