ہمیشہ سے مرے دل میں کوئی آباد رہتا ہے |
جو سچ اور جھوٹ کی پہچان میں آزاد رہتا ہے |
میں چپ رہ کر سنا کرتا ہوں پھر پڑتا ہوں سوچوں میں |
عمل اس کے کہے پر گر کروں وہ شاد رہتا ہے |
تمہیں کیسے سُنائیں حال اپنی بے خودی کا ہم |
اسیرِ زلفِ جاناں ہو جو کب آزاد رہتا ہے |
بھلے دن تھے کہ مل جاتے تھے کوئی آشنا چہرے |
مگر اب گاؤں میں کوئی کہاں آباد رہتا ہے |
چمن کو گلفروشوں نے کیا خالی گلابوں سے |
وہاں بلبل کوئی کرتا ہوا فریاد رہتا ہے |
پرندے اڑ گئے اپنے گھروں کو شام سے پہلے |
قفس تھامے مگر اب بھی وہاں صیّاد رہتا ہے |
مجھے تو پھونک کر رکھنا قدم ہے جس طرف جاؤں |
یہاں ہر موڑ پر میرا کوئی نقّاد رہتا ہے |
انا الحق کی صدا ئیں اب بھی اٹھتی ہیں نشیمن میں |
اگرچہ ہر گلی میں اب کوئی جلاّد رہتا ہے |
مجھے تو صبر کرنا ہے مجھےحق بات کہنی ہے |
مرے مدِّ نظر ہر دم مِرا اُستاد رہتا ہے |
تری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے طارق وہ ہر لمحے |
کہ جس کے اک اشارے پر پڑا شدّاد رہتا ہے |
معلومات