یہ بات تو نہیں تھی کہ حُسنِ غزل نہ تھا
تاثیر یوں نہیں تھی کہ اُس پر عمل نہ تھا
سایہ بھی دھوپ میں نہ دیا جس نے دو گھڑی
کس کام کا وہ پیڑ ، دیا جس نے پھل نہ تھا
آیا ہی لوٹ کر جو ہوا جاں بہ لب تو پھر
اُس وقت ، اس کے مسئلے کا کوئی حل نہ تھا
بچپن میں دوستی کے تعلّق بنے عجیب
تھے اور بھی عزیز ، پر ، ان کا بدل نہ تھا
حسرت ہے میں یہ کہہ سکوں جب بھی ملوں اسے
اپنا تو میرے پاس رہا کوئی پل نہ تھا
ظاہر کسی کے قُرب میں رہنے کا ہے اثر
آیا ہے اب نکھار جو چہرے پہ ، کل نہ تھا
طارق ہمیں بھی خوب ہی کی جستجو رہی
جب تک ہمارے سامنے حُسنِ ازل نہ تھا

0
61