یہ بات تو نہیں تھی کہ حُسنِ غزل نہ تھا |
تاثیر یوں نہیں تھی کہ اُس پر عمل نہ تھا |
سایہ بھی دھوپ میں نہ دیا جس نے دو گھڑی |
کس کام کا وہ پیڑ ، دیا جس نے پھل نہ تھا |
آیا ہی لوٹ کر جو ہوا جاں بہ لب تو پھر |
اُس وقت ، اس کے مسئلے کا کوئی حل نہ تھا |
بچپن میں دوستی کے تعلّق بنے عجیب |
تھے اور بھی عزیز ، پر ، ان کا بدل نہ تھا |
حسرت ہے میں یہ کہہ سکوں جب بھی ملوں اسے |
اپنا تو میرے پاس رہا کوئی پل نہ تھا |
ظاہر کسی کے قُرب میں رہنے کا ہے اثر |
آیا ہے اب نکھار جو چہرے پہ ، کل نہ تھا |
طارق ہمیں بھی خوب ہی کی جستجو رہی |
جب تک ہمارے سامنے حُسنِ ازل نہ تھا |
معلومات