عمر بھر کیونکر جگر اپنا لہو کرتے رہے |
کس کو پانے کی دگر ہم آرزو کرتے رہے |
خط کا مضموں بھانپ جائیں گے لفافہ دیکھ کر |
اس لئے بھی روز ہم دامن رفو کرتے رہے |
کیا کریں گے آ کے جب رخصت ہوا وقتِ نماز |
تھی امامت جن کے ذمّے گر وضو کرتے رہے |
جب نوافل پڑھ کے فارغ ہو گئے کر کے سلام |
پھر اُٹھا کر ہاتھ کس سے گفتگو کرتے رہے |
پوچھ لیجے آپ ہم نے کیا کِیا اُن سے سلوک |
زندگی بھر جو ستم ہم پر عدو کرتے رہے |
ہم نے سینے سے لگا رکھا ہے تیرے نام کو |
کون ہیں پامال اس کی آبرو کرتے رہے |
تیری خاطر ہم نے سمجھا تھا کبھی زیور انہیں |
ہم تو زنجیروں کو بھی طوقِ گلو کرتے رہے |
وہ سمجھتے ہیں کہ خوش ہو جائے گا اس سے خدا |
رقص گر پاؤں میں باندھے گھنگرو کرتے رہے |
ایک دن امّید ہے اُٹھ جائیں گے سارے حجاب |
جن کے ہٹ جانے کی طارق جستجو کرتے رہے |
معلومات