عمر بھر کیونکر جگر اپنا لہو کرتے رہے
کس کو پانے کی دگر ہم آرزو کرتے رہے
خط کا مضموں بھانپ جائیں گے لفافہ دیکھ کر
اس لئے بھی روز ہم دامن رفو کرتے رہے
کیا کریں گے آ کے جب رخصت ہوا وقتِ نماز
تھی امامت جن کے ذمّے گر وضو کرتے رہے
جب نوافل پڑھ کے فارغ ہو گئے کر کے سلام
پھر اُٹھا کر ہاتھ کس سے گفتگو کرتے رہے
پوچھ لیجے آپ ہم نے کیا کِیا اُن سے سلوک
زندگی بھر جو ستم ہم پر عدو کرتے رہے
ہم نے سینے سے لگا رکھا ہے تیرے نام کو
کون ہیں پامال اس کی آبرو کرتے رہے
تیری خاطر ہم نے سمجھا تھا کبھی زیور انہیں
ہم تو زنجیروں کو بھی طوقِ گلو کرتے رہے
وہ سمجھتے ہیں کہ خوش ہو جائے گا اس سے خدا
رقص گر پاؤں میں باندھے گھنگرو کرتے رہے
ایک دن امّید ہے اُٹھ جائیں گے سارے حجاب
جن کے ہٹ جانے کی طارق جستجو کرتے رہے

0
25