ڈبو دیتی ہیں مجنوں کو تری آنکھیں آہستہ آہستہ
دن کو شام کر دیتی ہیں تری زلفیں آہستہ آہستہ
ہے دستور محبت جاناں کہ یونہی ہو جاتی ہیں اکثر
پہلے باتیں اور پھر ملاقاتیں آہستہ آہستہ
ہائے میرے ناداں دل تو اور تری جلد بازیاں ہائے
کر لیتی ہیں دل گھر میں یہ چاہتیں آہستہ آہستہ
کتنی خوش فہمی ہے دل کو تری چاہت میں جاناں لیکن
ہے بے خبر گھٹ جاتی ہیں پھر راحتیں آہستہ آہستہ

0
70