سبق استاد جو تم کو سکھائیں ، یاد کر لینا
اگر دشمن کھری کھوٹی سنائیں ، صاد کر لینا
خیال و خواب کے طائر قفس میں پھڑپھڑائیں تو
انہیں تم شاد کر لینا ، انہیں آزاد کر لینا
اگر گلشن میں جا کر دن پرانے یاد آئیں تو
تم اپنا رُخ جہاں پر ہوں گل و شمشاد کر لینا
لبِ ساحل تمہیں آکر ہوائیں گدگدائیں تو
ذرا سا مسکرا دینا ، انہیں ہمزاد کر لینا
تلاطم ہو سمندر میں ، گھٹائیں گِھر کے آئیں تو
دُعا کر کے سفینے سے پرے افتادکر لینا
اگر پردیس میں اپنوں کی یادیں آ رُلائیں تو
تم آنسو پونچھ کر دل میں انہیں آباد کر لینا
اکیلے میں اگر دل کی تمنّائیں ستائیں تو
انہیں سمجھا بجھا کر ، صبر کا ارشاد کر لینا
تمہاری کامیابی پر جو دشمن تلملائیں تو
خدا کا شکر طارق مل کے سب افراد کر لینا

0
30