جاں گسل حسن کا دل میں جو مرا بسنا تھا
سوزِ دل درد میں ہر لمحہ مرا تپنا تھا
چھائی ہر سو یہ روشن سی فضا کیسی ہے
رخ سے اس چاند کا پردہ جو ذرا ہٹنا تھا
آئینہ دیکھ کے حیران و پریشان ہوا
بن سنوارے ہی ترے حسن کا یوں سجنا تھا
خوابِ حسرت کی سی آنکھوں میں مری چھائی ہے
اس کے رخسار ِِِِِِِِِِِِِِِِضیاء کا جو یو ں دھسنا تھا
بعد مدت کے وہ آئی تھی مجھے ملنے شب
ہاۓ کمبخت الارم کو ابھی بجنا تھا
آگئی رات کو پھر سے کوئی تاریکی سی
جانِ ثانی ؔ کا نگاہوں سے جو یوں چھپنا تھا

0
53