جاں گسل حسن کا دل میں جو مرا بسنا تھا |
سوزِ دل درد میں ہر لمحہ مرا تپنا تھا |
چھائی ہر سو یہ روشن سی فضا کیسی ہے |
رخ سے اس چاند کا پردہ جو ذرا ہٹنا تھا |
آئینہ دیکھ کے حیران و پریشان ہوا |
بن سنوارے ہی ترے حسن کا یوں سجنا تھا |
خوابِ حسرت کی سی آنکھوں میں مری چھائی ہے |
اس کے رخسار ِِِِِِِِِِِِِِِِضیاء کا جو یو ں دھسنا تھا |
بعد مدت کے وہ آئی تھی مجھے ملنے شب |
ہاۓ کمبخت الارم کو ابھی بجنا تھا |
آگئی رات کو پھر سے کوئی تاریکی سی |
جانِ ثانی ؔ کا نگاہوں سے جو یوں چھپنا تھا |
معلومات