اب خالی از فساد بحر و بر نہیں رہا
دامن ہمارا گرچہ کبھی تر نہیں رہا
دیکھی ہے جیسے زندگی ہم نے قریب سے
اب سچ کہیں تو موت کا بھی ڈر نہیں رہا
حرص و ہوا میں ظلم کی حد پار ہو گئی
جھولی میں آگ کون یہاں بھر نہیں رہا
عزّت کہاں سے لائے گا جا کر خرید کے
اب جس کے پاس کوئی مال و زر نہیں رہا
وابستہ کتنی یادیں رہیں جس سے اب تلک
کہتے ہیں گاؤں میں بھی مرا گھر نہیں رہا
طارق وہی ہے اس کے ہی گھر جا کے سر جُھکا
اس کے سوا کُھلا تو کوئی در نہیں رہا

0
51