وصل کی آرزو لئے چہرے
گھر سے نکلے ، کھِلے کھِلے چہرے
نورِ عرفاں سے جو ہوئے روشن
ٹمٹمائے ، نہ پھر بجھے چہرے
گرم جذبوں نے ، سرد راتوں میں
زرد ان کے نہیں کئے چہرے
آس رکھتے ہیں وہ جو ملنے کی
وہ دکھائی دئیے ، سجے چہرے
وصل سے ہو گئے منوّر جو
مسکراتے ہیں ، سوچتے چہرے
تیز جب بھی چلے مسافر پھر
گرد آلود کچھ ہوئے چہرے
ہم جو ان کے قریب جا بیٹھے
ان کے فوراً بدل گئے چہرے
آنکھ کھولیں تو پھر نظر آئیں
منتظر لوگ ، ملگجے چہرے
کاش بدلیں وہ زندگی طارق
ہوں گے اک دن عیاں چھپے چہرے

0
20